دنیا کی بساط لپیٹے جانے کا وقت آ پہنچا ہے

یہ سنہ ۲۰۱۸ کی بات ہے کہ ایک ایسا نکتہ ناچیز پر کھلا کہ اُوپر کی سانس اُوپر اور نیچے کی نیچے ہی رہ گئی۔ یہ انکشاف انتہائی حیران کن اور پریشان کن تھا کہ جس مستقبل کو ہم افسانوں میں پڑھتے تھے اور جس Future Generation کو ہم نے خود سے کئی ہزار سال بعد تصور کیا ہوا تھا کہ جن لوگوں پر دنیا کا اختتام ہو گا، دنیا کی بساط لپیٹی جائے گی، دنیا تباہی اور بربادی کا شکار ہو گی، وہ مستقبل کے لوگ، وہ Future Generation دراصل ہم خود ہی ہیں۔

اس سے پہلے کہ آپ احقر کو ایک دیوانہ اور اس انکشاف کو محض ایک دیوانے کی بھڑک سمجھ کر گزر جائیں، آپ سے گزارش ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے اس تحریر کو مکمل طور پر ملاحظہ فرما لیں۔

کیا حضرت محمدﷺ نے آخر الزمان یا قیامت کا وقت ، تاریخ اور سال بیان فرمایا ہے؟

اکثر گمان کیا جاتا ہے کہ آخر الزمان کے بارے میں جو روایات اور احادیث موجود ہیں ان میں وقت کا تعین نہیں ہے اور وقت کے تعین سے متعلق کسی بھی تحقیق یا رائے کو محض گمان یا اٹکل پچو قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مگر لاکھوں کروڑوں درود و سلام اس ذات عالی وقارﷺ پر کہ جن کو رب الرحمٰن نے وہ علم دیا جو کائنات میں کسی اور کی دسترس میں نہیں۔ بعد از قلیل ورق گردانی، یہ قیاس بالکل غلط ثابت ہو جاتا ہےکہ علم الآخر لزمان کے حوالے سے موجود روایات و احادیث مبارکہ میں وقت کا تعین نہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آخر الزمان کے حوالے سے محمد الرسول اللہ ﷺ نے ایک ایک واقعے اور ایک ایک نشانی کے وقت کا واضح اشارہ فرمایا ہے۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ اُمت اس معاملے پر اس قدر توجہ دینے سے قاصر رہی ہے جس قدر توجہ اس معاملے کو درکار تھی۔

ذیل میں ہم تفصیلاً جانیں گے کہ کیسے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ دنیا کی بساط لپیٹے جانے کا وقت آ پہنچا ہے اور یقیناً ہم ہی وہ آخری نسل ہیں جن پر اُمت محمدیہ کا سورج غروب ہو گا۔

فرمان محمدﷺ کے مطابق اُمت محمدیہ کی عمر ۱۵۰۰ ہجری سال سے زائد نہیں

نبیِ برحق خاتم النبیین محمد الرسول اللہ ﷺ کے فرمودات میں آخر الزمان کا مکمل نقشہ موجود ہے۔ آپﷺ نے ہمیں وقت کا ٹھیک ٹھیک تخمینہ بھی بتایا ہے کہ اس دنیا کی بساط کب اور کیسے لپیٹی جائے گی۔ نا چیز کی یہ گزارش کہ ہم ہی وہ آخری لوگ ہیں جن پر دنیا کی بساط لپیٹی جائے گی، کسی اور بنیاد پر نہیں بلکہ محمد الرسول اللہﷺ کے فرمودات ہی کی روشنی میں ہے۔ نیز حالاتِ حاضرہ اور عالمی منظر نامے پر مختصراً نظر ڈالنے سے یہ بات مزید عیاں ہو جاتی ہے کہ احادیث مبارکہ میں بیان کردہ علامات صغریٰ دراصل مکمل ہو چکی ہیں۔

نبی مکرم حضرت محمدﷺ نے اپنی اُمت کی عمر واضح طور پر ارشاد فرما دی ہے:

حدثنا عمرو بن عثمان، حدثنا ابو المغيرة، حدثني صفوان، عن شريح بن عبيد، عن سعد بن ابي وقاص: النبي صلى الله عليه وسلم قال:” إني لارجو ان لا تعجز امتي عند ربها ان يؤخرهم نصف ذلك اليوم؟ قال: خمس مائة سنة”.

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں امید رکھتا ہوں کہ میری امت اتنی تو عاجز نہ ہو گی کہ اللہ اس کو آدھے دن کی مہلت نہ دے“۔ سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آدھے دن سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے کہا: پانچ سو سال۔ ‏‏‏‏

20890 – 4350 تخریج الحدیث: ‏‏‏‏تفرد بہ أبودواد، (تحفة الأشراف: 3864)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/170) (صحیح) قال الشيخ الألباني: صحيح

[1]20890 – 4350 تخریج الحدیث: ‏‏‏‏تفرد بہ أبودواد، (تحفة الأشراف: 3864)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/170) (صحیح) قال الشيخ … Continue reading

مندرجہ بالا حدیث کے بارے میں واضح رہے کہ مسند احمد نے اس حدیث کو صحیح کا درجہ دیا ہے اور شیخ البانی نے بھی اس کو صحیح حدیث قرار دیا ہے۔

اسی قسم کا مضمون دوسری حدیث میں یوں بیان ہوا ہے:

حدثنا موسى بن سهل، حدثنا حجاج بن إبراهيم، حدثنا ابن وهب، حدثني معاوية بن صالح، عن عبد الرحمن بن جبير، عن ابيه،عن ابي ثعلبة الخشني، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” لن يعجز الله هذه الامة من نصف يوم”.

ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس امت کو قیامت کے دن کے آدھے دن سے کم باقی نہیں رکھے گا “۔

[2]تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11864)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/193) (صحیح)

تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11864)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/193) (صحیح)‏‏‏‏

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا حدیث میں تو پانچ سو سال کا ذکر ہے، تو اس سے مراد پندرہ سو سال کیسے ہوگئے؟ ناچیز کی تو کوئی حیثیت نہیں کہ احادیث کی تشریح کرے یا من مانے معانی اخذ کرے، احقر تو علمائے سلف سے ہی سیکھنے کو سعادت سمجھتا ہے۔ ملاحظہ ہو مندرجہ بالا حدیث کے بارے میں حدیث کے متفق علیہ عالم اور مفسر علامہ سیوطی رحمہ اللہ کیا فرماتے ہیں:

علامہ سیوطی نے اپنے بعض رسائل میں یہ لکھا ہے کہ آپ ﷺ کی وفات کے ہزار سال بعد پانچ سو سال سے یہ امت تجاوز نہیں کرے گی۔ بعض لوگوں نے دسویں صدی میں مہدی کے ظہور ، دجال کے خروج، عیسٰیؑ کے نزول اور دیگر علامات قیامت کے ظہور کا فتوی دیا مگر سیوطی نے اس فتوے کی تردیدکر کے اخبار آثار سے ایک ہزار سال کے بعد پانچ سو سال سے آگے نہ بڑھنے کو ثابت کیا۔

مظاہر حق جدید (تشریح مشکوٰة المصابیح) جلد پنجم صفحہ ۹۸ [3]مظاہر حق جدید (تشریح مشکوٰة المصابیح) جلد پنجم صفحہ ۹۸

علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی تشریح ان کو اللہ رب العزت کی طرف سے عنایت کردہ بصیرت کا مظہر ہے۔

بوقت تحریر ہم ۱۴۴۳ھ میں موجود ہیں۔ لہذٰا اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ امت مسلمہ کے پاس کم و بیش ساٹھ سال باقی ہیں۔ واضح رہے کہ امت مسلمہ کا ختم ہونا قیامت کے وقوع کا عین وقت نہیں ہے۔ دراصل خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کے فرمودات کے مطابق امت مسلمہ کے دنیا سے ختم ہو جانے کے بعد بھی کچھ عرصہ تک دنیا کا نظام چلتا رہے گا، مگر اس وقت زمین پر بدترین لوگ بستے ہوں گے، اور یہی وہ لوگ ہوں گے جن پر صور پھونکا جائے گا اور قیامت قائم ہو گی[4] قیامت بد ترین لوگوں پر قائم ہو گی۔ صحیح احادیث۔

اب جبکہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ موجودہ صدی ہجری یعنی پندرھویں صدی ہجری ہی امت مسلمہ کا آخری دور ہے، ہمارے لیے یہ جاننا آسان ہو گیا ہے کہ ہم اس وقت آخر الزمان کے کیلنڈر پر کس خانے میں موجود ہیں، اور آخر الزمان کے کون کون سے واقعات ہم میں سے بیشتر کی زندگیوں میں رونما ہونے والے ہیں۔

اس بارے میں انشاءاللہ تفصیلاًگزارشات پیش کرتا رہوں گا، آپ سے التماس ہے کہ ہمارا واٹس ایپ گروپ جوائن فرما لیں نیز یہ تحریر احباب تک پہنچانا نہ بھولیے گا۔

اسی موضوع پر میرا لیکچر یوٹیوب پر موجود ہے۔ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

،والسلام
اویس نصیر

مورخہ ۱۴ جولائی ۲۰۲۲ء
بمطابق ۱۴ ذوالحجہ ۱۴۴۳ھ