تصورِمہدی: امام مہدی کی ضرورت آخر کیونکر ہے؟

نبی مکرم، ہادیِ کائنات، دانائے سبل، خاتم النبیین حضرت محمد علیہ وآلہِ صلٰوة و سلام کی متواتر احادیث مبارکہ میں ہمیں ایک ایسی شخصیت کا تذکرہ ملتا ہے جو آخرالزماں میں اللہ تعالی کی جانب سےانسانیت کی نجات دہندہ بنا کر بھیجی جائے گی۔ امام مہدی علیہ الصلوةُ والسلام ، نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم (میرے ماں باپ آپ پر قربان) کی ذریت میں سے ہوں گے اور انسانیت کو آخر کار اپنی اس اصل منزل مراد کی جانب گامزن فرمائیں گے جس کے لیے ابا آدم علیہ الصلوة والسلام کو اس زمین پر اتارا گیا تھا۔ 

امام مہدی کا تصور جتنا پر اُمید ہے اتنا عجیب بھی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کیسے:

انسان کا زمین پر مشن کیا تھا؟

اللہ رب العزت نے انسانوں اور جنات سے پہلے بہت سی مخلوقات کو تخلیق فرمایا۔ زمین، آسمان، فرشتے، چرند پرند، نباتات اور قسم ہا قسم کے جاندار اور بے جان مخلوقات۔ ان سب کی خصوصیات اور جزیات مختلف تھیں مگر ان سب میں ایک بات یکساں تھی کہ یہ سب ہر حال میں اللہ کہ تسبیح و تقدیس کرتے اور اس کی حکم عدولی بجا لانے کی سکت نہیں رکھتے۔

  سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الحدید)

جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے خدا کی تسبیح کرتا ہے۔ اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے۔ 

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ ۖ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ (النور ۴۱)

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں خدا کی تسبیح کرتے ہیں اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی۔ اور سب اپنی نماز اور تسبیح کے طریقے سے واقف ہیں۔ اور جو کچھ وہ کرتے ہیں (سب) خدا کو معلوم ہے۔ 

تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا (بنی اسرائیل ۴۴)

ساتوں آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں ہیں سب اسی کی تسبیح کرتے ہیں۔ اور (مخلوقات میں سے) کوئی چیز نہیں مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ بےشک وہ بردبار (اور) غفار ہے۔ 

مگر ان سب مخلوقات کی عبادت شوق و محبت سے خالی اور ازراہِ مجبوری ہے۔ اللہ نے ان کو تخلیق ہی ایسے فرمایا ہے کہ ان کے بس میں اس کے سوا کچھ نہیں جو انہیں حکم کر دیا گیا ہے۔ آج کے دور میں اس کی مثال ایک مشین کی سی ہے جو آپ کے اشارے پر فوراً آپ کا کام کر دیتی ہے۔ ایک مشین ہزار بار آپ کے کپڑے دھوئے وہ آپ کی اس تعریف اور شفقت کی مستحق نہیں ہو سکتی، جو آپ کا بچہ ایک گلاس پانی پلانے سے حاصل کر سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مشین کے پاس آپ کی بات ماننے کے سوا چارہ نہیں اور اس کو بنایا ہی کپڑے دھونے کے لیے گیا ہے جبکہ ایک بچے کے پاس اختیار، ارادہ اور بہت سارے کھیل کے سامان موجود ہیں۔ اس لیے بچے کا ان سب چیزوں پر آپ کے حکم کو فوقیت دینا ایک بڑی سعادت، باعث تعریف اور باعث انعام امر ہے۔ یہی معاملہ اللہ کی مخلوقات کا بھی ہے۔ شمس و قمر کی تسبیح تو خوب، تاروں اور درختوں کے سجود تو بجا مگر اعمال کے بدلے ان کو نواز کر سرفراز کرنا بے معنی۔ 

لہذا اللہ نے اپنی رحمت بے پایاں اور انعاماتِ بے انتہا سے نوازنے کے لیے ایک ایسی مخلوق کو تخلیق فرمایا جس کو اللہ نے ‘اختیار’ کی خصوصیت سے نوازا۔ اور وہ مخلوق تھی جنات۔ 

اُس وقت سے پہلے پہلے اللہ کی افضل ترین مخلوق فرشتے تھے جن کو اللہ نے اپنے نور سے پیدا فرمایا تھا۔ اور وہ ‘نوری مخلوق’ کہلائے۔

جنات کو فرشتوں کے بعد دوسرے درجے کی افضل ترین چیز آگ سے پیدا فرمایالہٰذا ‘ناری مخلوق’ کہلائے۔ ان جنات کو اللہ نے آزمائش کے لیے اپنے خصوصی پلیٹ فارم پر اتارا جس کو ہم زمین کہتے ہیں۔ مگر آگ کی اصل ہونے کی بدولت جنات میں خیر کی بجائے شر اور تخلیق کے بجائے تخریب کا مادہ زیادہ پایا گیا۔ لہٰذا انہوں نے اللہ کی زمین پر فتنہ و فساد، کشت و خون کا بازار گرم کر دیا۔ اللہ کو پہچاننے کے بجائے اپنی شہوات کی پرستش کی اور اپنی وجہۂ تخلیق سے رو گردانی کی۔ لہٰذا اللہ نے اپنے فرشتوں کو اتارا جنہوں نے ان نا فرمان شیاطین کو زمین کے کناروں پر دھکیل دیا۔

البتہ جنات میں ایک ایسا ذی شعور جن اُبھرا جس نے اپنے رب کو پہچانا، اور اپنی وجہۂ تخلیق یعنی اللہ کی عبادت کو اپنا مقصدِ زندگی بنایا۔ اپنی اس خاص توفیق کی وجہ سے اللہ نے اس کو اَرفع فرمایا اور اس کو فرشتوں کی صفوں میں خصوصی مقام سے سرفراز فرمایا۔ اس جن کا نام تھا ابلیس۔ مگر مجموعی طور پر اپنی شیطنت کی وجہ سے جنات ربِ عزو جل کے انعامات کے مستحق نہ ہو سکے۔ 

ربِ عزو جل نے اپنی رحمتِ بے پایاں سے نوازنے کے لیے ایک اور مخلوق یعنی انسان کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ اب یہ بارِ عظیم آکر انسان کی کاندھے پر پڑا:

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ-اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا (الاحزاب۔۷۲)
بیشک ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پرامانت پیش فرمائی تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اُٹھالیا بیشک وہ زیادتی کرنے والا، بڑا نادان ہے۔

انسان اللہ کی عجیب مخلوق تھی۔ اس کو اللہ نے ایک ایسی اصل سے بنایا جو حقیر ترین تھی۔ یعنی زمین کی مٹی جس سے اللہ نے چرند پرند اور جانوروں کو پیدا فرمایا تھا اور یہ مٹی کبھی جانوروں کے پاؤں کے نیچے حقارت کی مثال بنتی کبھی اس پر جنات اپنے قدم رکھ کر اس کو اس کی حقارت کا پیغام دیتے۔ مگر رب تعالیٰ کی حکمتوں کو اس کی شان ایزدی سے زیادہ کون جانتا ہے۔ اُس نے اِس حقیر مٹی سے ایک ایسی اعلیٰ اور اَرفع مخلوق کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمایا جو اپنی حقیر اصل ہونے کے باوجود، نافرمانی اور شہوات کا اختیار ہونے کے باوجود، مادی وسائل کا احتیاج ہونے کے باوجود اپنے خالق کو پہچان کر اشرف المخلوقات کا مقام پائے۔ اِس مخلوق کو اللہ نے انسان کا نام دیا اور پھر اس کی تخلیق کا فیصلہ اپنی اَقرب مخلوق یعنی فرشتوں کو سنایا۔ از البقرۃ ۳۰ :

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ

اور جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔

فرشتے تو انسان سے پہلے جنات کی حرکتوں سے خوب واقف تھے۔ ان کو جب پتہ چلا کہ ایک اور صاحبِ اختیار مخلوق زمین میں پیدا کی جانے والی ہے تو فورا چلا اٹھے:

قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ

انہوں نے کہا۔ کیا تُو اس (زمین) میں ایسے کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے جبکہ ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں۔

لیکن اللہ جانتا تھا کہ یہ حقیر مادے سے پیدا کی جانے والی مخلوق آخر کار ان سعادتوں، رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں سے سرفراز ہو گی جس سے جنات اپنی نادانی کے سبب محروم رہے۔ لہذا اللہ نے فرمایا:

قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے

وہ خاص حکمت جس کے تحت اللہ نے انسان کو بنایا وہ یہی تھی کہ انسان اللہ کی توفیق سے اور اس کی خصوصی رحمت سے آخر کار اپنے رب کو پہچانے گا اور انسانوں میں سے ایک افضل ترین نفس یعنی محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ پر میرے ماں باپ قربان، کو افضل ترین مقام یعنی مقام محمود پر سرفراز کیا جائے گا۔ اسی خصوصی حکمت کے تحت اللہ نے تخلیق آدم کے فوراً بعد فرشتوں کو حکم فرمایا کہ آدم علیہ السلام کو سجدۂ تعظیمی بجا لائیں: البقرة ۳۴:

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ

اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو

 یہ سجدہ، سجدۂ عبادت نہ تھا بلکہ سجدۂ تعظیمی تھا۔ یعنی اللہ کے حکم کا اجراء تھا کہ آج سے ایک ایسی مخلوق اس کائنات میں وجود پزیر ہو چکی ہے جس کا مقام اللہ کے نزدیک سب سے ارفع ہے۔ اور یہی بات ابلیس کے لیے نا قابل قبول ٹھہری:

فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ

 تو وہ (فرشتے) سجدے میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آکر کافر بن گیا

اللہ ابلیس کی نیت سے خوب واقف تھا مگر پھر بھی ازراہِ تکمیل حجت پوچھا: الاعراف ۱۲: 

قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ

(خدا نے) فرمایا جب میں نے تجھ کو حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے باز رکھا۔

تو ابلیس نے فورا اپنی بڑائی اور انسان سے بغض کا اعلان کر دیا: 

قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ

 اس نے کہا کہ میں اس سے افضل ہوں۔ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے

خالق ارض و سماوات کی بارگاہ میں گستاخی کا نتیجہ، جنات میں سے جو واحد ذی شعور اپنے رب کی عبادت بجا لا کر سرفراز ہوا تھا، وہ بھی راندہ درگاہ ٹھہرا: الاعراف ۱۳: 

قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ

فرمایا تو دفع ہو جا، تجھے شایاں نہیں کہ یہاں غرور کرے پس نکل جا۔ تو (انسان سے بہتر نہیں بلکہ) کمتر ہے۔ 

یہاں ابلیس مزید اکڑا۔ اور الله کو چیلنج کر بیٹھا: الاعراف ۱۶ – ۱۷: 

قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ

(پھر) شیطان نے کہا مجھے تو تُو نے ملعون کیا ہی ہے میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان (کو گمراہ کرنے) کے لیے بیٹھوں گا۔ 

ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ

پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے دائیں سے اور بائیں سے (غرض ہر طرف سے) آؤں گا (اور ان کی راہ ماروں گا) اور تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔ 

اس چیلنج کے نتیجے میں جہاں الله نے ابلیس کے پیروکاروں کے لیے عذاب کا اعلان کیا وہیں انسان کے لیے کچھ ایسی مراعات کا اعلان بھی فرمایا جو جنات کو مہیا نہیں تھیں۔ یہی وہ وسائل اور ذرائع ہیں جن کے ذریعے الله حق پرست انسانوں کو سرخرو فرمائے گا اور ابلیس کی باطل دعوت کا بھیجا نکال باہر کرے گا: الانبیاء ۱۸:

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ

بلکہ ہم حق کے ذریعےباطل پر کاری ضرب لگاتے ہیں تو وہ اس کا بھیجا نکال کر رکھ دیتا ہے اور باطل اسی وقت نابود ہوجاتا ہے۔ اور جو باتیں تم بناتے ہو ان سے تمہاری ہی خرابی ہے

ابلیس کی شیطنت کے مقابلے میں اللہ نے انسان کو اپنی جانب سے جس خصوصی پیکج سے نوازا تاکہ انسان اشرف المخلوقات کے منصب کا حق ادا کر سکے اور حجاباتِ مادی سے ماورا ہو کر اپنے خالق حقیقی کو پہچانے اور اپنی مادی ضروریات و شہوتوں کے باوجود الله کی عبادت کا حق ادا کرے۔ اس کا نام الہامی علم ہے جو اللہ وقتا فوقتا اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے انسان کے پاس بھیجتا رہا ہے۔ 

انبیاء و الرسل تو ہر دور میں انسان کے پاس آتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ایسا دور بھی گزرا ہے جب زمین پر ایک ہی وقت میں کئی کئی انبیاء موجود رہے ہیں۔ ادھر ابرا ہیم علیہ السلام ہیں تو ادھر لوط علیہ السلام۔ پھر اللہ کی خصوصی رحمت بنی اسرائیل پر ہوئی۔ کہ ایک نبی کے اس دنیا سے جاتے ہی دوسرا نبی مبعوث کر دیا جاتا مگر ماضی کی تمام ہی امتوں میں زیادہ تر لوگ حق سے نابلد اور ابلیس کے پیرو رہے۔ اتنے تسلسل سے انبیاء کا آنا اور ہر وقت الہامی علم کا ان کو میسر رہنا ان کے کسی کام نہ آیا۔ یہود نے اللہ کے ساتھ اپنے ہی نبی حضرت عزیر علیہ السلام کو شریک ٹھہرایا اور نصاریٰ نے اپنے نبی حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیا۔ 

انسان کی یہ کم ظرفی اللہ کی رحمت بے پایاں میں کمی نہ کر سکی اور اللہ نے اپنی خصوصی رحمت سے نبی آخر الزماں کے ذریعے انسان کی تخلیق کا مقصد پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا انتظام فرمایا۔ اور خاتم النبیین محمد مکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے اپنی عظیم حکمتیں ظاہر کرنے کا بندو بست فرمایا۔ ہم وہ خوش قسمت امت ہیں جس کے ذریعے الله باطل کو وہ کاری ضرب لگائے گا جس کا اُس نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے۔ امت مسلمہ وہ با سعادت امت ہے جس کے ذریعے الله اہل باطل اور پچھلی امتوں کو یہ واضح پیغام دے گا کہ میں نے ایک وقت میں کئی کئی انبیاء بھیجے مگر تم نے نصیحت نہ پکڑی۔  میں نے تمہارے اوپر سہولیات کی بارش کر دی۔کبھی من و سلوی اتارا ، کبھی بادل کا ٹکڑا تمہارے سائے کے لیے مقرر کر دیا، کبھی ایسا نبی بھیجا جو معجزے سے پیدا ہوا اور الله کے حکم سےمردوں کو بھی زندہ کر دیتا تھا مگر تم لوگوں نے حق کی پیروی نہ کی۔ لہذا میں اپنے حق کی تکمیل ایک ایسی امت سے کروں گا جس کا نبی ایک نبی ہو گا۔ پوری دنیا میں بسنے والے اسی ایک نبی کی دعوت کے مدعی ہوں گے۔ اس نبی کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد فورا اگلا نبی مبعوث ہونا تو درکنار، اس کے بعد انبیاء کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ہی ختم ہو جائے گا۔ 

الہامی پیغام سے اس قدر دور ہونے کے باوجود، یہ امت ایک ایسی با سعادت اُمت ہو گی جو نہ صرف توحید پر مجتمع ہو گی بلکہ اپنے درمیان کسی نبی کے نہ ہوتے ہوئے بھی پوری زمین پر اپنے خالق کا حق قائم کرے گی۔ 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس دنیا سے جانے کے تقریباً ۶۰۰ سال بعد نبی مکرم محمد صلو علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ ان ۶۰۰ سے زائد سالوں میں انسان کی گمرا ہی کا یہ حال ہوا کہ پوری زمین پر شائد ایک بھی شخص اہلِ توحید میں سے نہ تھا۔ نبی مکرم علیہ وسلم کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ڈیڑھ ہزار سال بیت گئے۔ مگر الله کے خصوصی کرم کی بدولت اُمت مسلمہ میں آج بھی غالب اکثریت اہل توحید کی ہے۔ نبوت سے اس قدر دوری کی وجہ سے بہت ساری خرابیاں، کوتاہیاں اور کمزوریاں تو ضرور پیدا ہو گئی ہیں مگر اللہ کے وعدے کے مطابق یہ امت ان کمیوں،  [1]صحیح، رواہُ احمدکوتاہیوں اور کمزوریوں کو دور کر کے اس زمین پر بالآخر حق قائم کرے گی۔ 

انسانیت کے مشن کی تکمیل امام مہدیؑ کے ذریعے ہوگی

وہ انسان جو کئی انبیاء کی موجودگی میں حق کو نہ پکڑ سکا وہ نبوت سے اس قدر دور ہو کر کیونکر حق کو پہچانے گا؟ جس کام کا انبیاء سے آغاز ہوا وہ کام عام اُمتی کیونکر پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے؟ 

الله کا اس امت پر خصوصی کرم ہے کہ اللہ انبیاء اور نئی شریعت کو تو نہیں بھیجے گا مگر اسی امت کے کچھ لوگوں کو مصلحین اور مجددین کی ذمہ داری سونپتا رہے گا۔ 

إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا۔ رواه أبو داود (رقم/4291)

– ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” اللہ اس امت کے لئے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا ”۔

ان مصلحین کا سلسلہ حضرت مہدی پر جا کر اپنے منہج پہنچے گا۔ اور امام مہدی علیہ السلام ہی وہ شخصیت ہوں گے جن کے ذریعے اللہ رب العزت اس وعدے کو پورا کرے گا جس کے لیے اس نے انسان کو زمین میں پیدا فرمایا۔ 

عن علي رضي االله عنه قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: )لو لم يبق من الدهر إلا يوم لبعث االله رجلا من أهل بيتي، يملأ الارض عدلا كما ملئت جورا. ( أخرجه أبو داود واحمد وابن أبي شيبة وهو صحيح)

 علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” اگر زمانہ سے ایک ہی دن باقی رہ جائے گا تو بھی اللہ تعالی میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کھڑا بھیجے گا وہ اسے عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جیسے یہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہوگی ”۔

عن تَميم الداري -رضي الله عنه-، قال: سمعتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «ليَبْلغنَّ هذا الأمرُ ما بلغ الليلُ والنهارُ، ولا يترك اللهُ بيت مَدَر ولا وَبَر إلا أدخله الله هذا الدين، بعِزِّ عزيز أو بذُلِّ ذليل، عزا يُعِزُّ الله به الإسلام، وذُلا يُذل الله به الكفر» وكان تميم الداري، يقول: قد عرفتُ ذلك في أهل بيتي، لقد أصاب مَن أسلم منهم الخير والشرف والعز، ولقد أصاب من كان منهم كافرا الذل والصَّغَار والجِزية. [صحيح ۔ رواه أحمد]

تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ دین ہر اس جگہ تک پہنچ کر رہے گا جہاں دن اور رات کا چکر چلتا ہے اور اللہ کوئی کچا پکا گھر ایسا نہیں چھوڑے گا جہاں اس دین کو داخل نہ کر دے، خواہ اسے عزت کے ساتھ قبول کر لیا جائے یا اسے رد کر کے (دنیا و آخرت کی) ذلت قبول کر لی جائے؛ عزت وہ ہوگی جو اللہ اسلام کے ذریعے عطا کرے گا اور ذلت وہ ہوگی جس سے اللہ کفر کو ذلیل کر دے گا۔ تمیم داری رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اس فرمان رسول ﷺ کی صداقت میں نے اپنے خاندان میں دیکھی ہے کہ ان میں سے جو مسلمان ہوگیا، اسے خیر، شرافت اور عزت نصیب ہوئی اور جو کافر رہا، اسے ذلت، رسوائی اور جزیہ کا سامنا کرنا پڑا۔

آئندہ تحاریر میں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ امام مہدی کی قیادت میں اسلامی نظام کا قیام کیسے ہوگا۔ انشاءاللہ!

ہماری تحاریر کا سلسلہ اللہ کے فضل و کرم ساے جاری ہے۔ آپ سے التماس ہے کہ ہمارا WhatsApp Group جوائن کرنا نہ بھولیے گا تاکہ آپ آئندہ تحاریر سے بھی مستفید ہو سکیں۔

والسلام،
اویس نصیر

جولائی 28، 2022
ذوالحجہ ۲۹، ۱۴۴۳

References