انسانیت اپنے نجات دہندہ کی تلاش میں ہے

انسان ہزاروں سال سے ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔ نسلوں کی نسلیں بیت گئیں، کئی قومیں آئیں اور گزر گئیں، کئی تخت جمے اور کئی اُلٹے، مگر انسان اسی انتظار میں رہا کہ کوئی نجات دہندہ آئے جو مخلوق کو مخلوق کی غلامی سے نکال کر خالق کی بندگی میں دے دے۔

انسانوں کی اس طلب کی گونج عرش تک پہنچی اور اللہ نے ہزاروں سال پہلے انسان سے وعدہ فرمایا:

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِى ٱلزَّبُورِ مِن بَعْدِ ٱلذِّكْرِ أَنَّ ٱلْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ ٱلصَّٰلِحُونَ (الانبیاء۔ ۱۰۵)
اور بیشک ہم نے ” ذکر ” ( مراد توریت یاتمام انبیاء ؑ کی کتابیں یا لَوحِ محفوظ ) کے بعد زبور میں بھی یہ لکھ چھوڑا ہے کہ ( آخرکار ) زمین کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے ۔

زبور حضرت داوُوء پر اُتری۔ اس وقت بنی اسرائیل اللہ کی پسندیدہ قوم ہوا کرتی تھی۔ اللہ نے ان کے اس اعزاز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:

یٰبَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ (البقره۔ ۱۲۲)
اے بنی اسرائیل! میری نعمت یاد کرو جو میں نے تم پر کی اور یہ کہ بلاشبہ میں نے ہی تمھیں جہانوں پر فضیلت بخشی۔

سب سے لاڈلی قوم ہونے کی وجہ سے، اور اللہ کے اَن گنت انعامات کی بدولت بنی اسرائیل یہی سمجھے کہ زمین کی وراثت کا وعدہ انہی سے ہے، چاہے وہ جو مرضی کرتے پھریں۔ اسی گھمنڈ میں انہوں نے خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کو بھی جھٹلا دیا کہ آپﷺ بنی اسرائیل میں سے کیوں نہیں آئے۔

ایک قول کے مطابق انسان کو اس دنیا میں آئے سات لاکھ سال گزر چکے ہیں [1] بمطابق محمد قاسم بن عبد الکریم۔ ان سات لاکھ سالوں میں انسان اپنے نجات دہندہ کے انتظار میں ہی رہا ہے۔ اولاً حضرت آدمؑ اور بعد ازاں حضرت نوحؑ انسانوں کے جدِ امجد ہوئے، اس نسبت سے دنیا میں بسنے والے تمام ہی انسان انبیاء کی اولاد ہیں۔ مگر اہل مکہ کی طرح نبوت سے طویل المدت دوری کی بناء پر انسان نیک و بد میں بٹ چکے ہیں۔ ایک قلیل تعداد کے علاوہ انسان نے نفس کی پیروی اور ابلیس کی پوجا ہی کو اپنی روش بنائے رکھا ہے۔ انسانوں کی ایک بڑی تعداد نافرمانی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے اللہ سے کھلم کھلا دشمنی مول لے چکی ہے۔ ہندو اللہ کے ساتھ پتھر کے صنم شریک ٹھہراتے ہیں تو یہود محمد الرسول اللہ کو اپنی اولاد کی طرح پہچاننے کو باوجود آپ ﷺ سے دشمنی کر کے مغضوب علیہم ہو چکے ہیں۔ نصاریٰ بھی مسیحاؑ کو بندوں کے درجے سے بڑھا کر اولادِ خداوند قرار دے کر الضالین ٹھہر چکے۔ غیر ابراہیمی مذاہب اور لادین لوگ یا تو صریح غفلت کا شکار ہو چکے ہیں یا سراسر اللہ کے وجود سے ہی انکار کر دیا ہے۔

اس اثناء میں انسانیت کی اکثریت خدا کے وجود سے تو اب بھی واقف ہے مگر ابلیس کی شیطانیاں اور نفس کی گمراہیاں انسان کو ربِ رحمٰن کی وحدانیت سے دور کر چکی ہیں۔ مگر جیسے انسان خدا کے وجود کو یکسر نہیں بھولا، اسی طرح نجات دہندہ کے قائل تقریباً سبھی مذاہب اب بھی ہیں۔ لیکن یہ خوشخبری بگڑتے بگڑتے ہند کی سرزمین پر "کلکی اوتار” بن گئی اور بدھ مت نے اس کو "میتریہ” کا نام دے دیا؛ جبکہ یہود آج بھی اس مسیحا کے انتظار میں ہیں جو زبور میں کیے گئے اس وعدے کو پورا کرے، حالانکہ مسیحاؑ تو ان کی طرف بھیجے جا چکے تھے، اور یہود نے اپنی طرف سے انہیں نعوذ باللہ قتل ہی کر دیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی بساط لپیٹے جانے سے قبل جب یہ نجات دہندہ آئے گا، تو کس کے حق میں واقعتاً نجات دہندہ قرار پائے گا اور کس ظلم اور بربریت کو پاش پاش کر کے زمین میں گاڑھے گا؟ کیا کلکی اوتار ہندو مت کو غالب کر کے سب انسانوں کو بتوں کی پوجا میں لگا دے گا؟ یا پھر مسیحا آکر انسانوں کو تثلیث کے حوالے کر دے گا؟ یا پھر کوئی اللہ کا بندہ ہو گا جو تمام بتوں کو توڑ کر، تمام جھوٹے خداوٗں کا خاتمہ کر کے رب کے بندوں کو ہر غلامی سے نکال کر صرف ربِ رحمٰن یعنی اللہ کی بندگی میں دے دے گا؟

نیز، دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی طاقت ہوگی جس سے انسانیت کا حقیقی نجات دہندہ ٹکرائے گا؟ کیا چھوٹے چھوٹے چھوٹے خداوٗں کو ایک ایک کر کے مٹائے گا ، چھوٹی چھوٹی باطل سلطنتوں کا فرداً فرداً خاتمہ کرے گا ؟ یا پھر سارا باطل ایک جھنڈے تلے جمع ہو گا اور حق کے مد مقابل آ کھڑا ہو گا؟

ان تمام سوالوں کا جواب ہمیں آخری دین، اور حقیقی دین، یعنی دینِ محمدیﷺ میں ملتا ہے:

  • جو دین حضرت آدمؑ لے کر آئے تھے، وہ دین اسلام ہی تھا۔ شریعت کے احکامات اللہ ہر دور میں حالات و واقعات کے حساب سے بدلتا رہا ہے، مگر بنیادی اصول ایک ہی رہا ہے یعنی قولوا لا اله الا الله تفلحوا (اللہ کی وحدانیت کا اقرار کر لو کامیاب ہو جاوٗ گے)۔ یہی دین بالآخر دینِ محمدی کی صورت میں کامل کر کے انسانیت تک پہنچا دیا گیا۔ اب یہی دین دینِ حق ہے، اور تمام انسانوں پر اس کی پیروی لازم آتی ہے۔
  • دین محمدی ﷺ کے نازل ہو جانے کے بعد، اس کے حق ثابت ہو جانے کے بعد، دین محمدی اور اس کے پیروکار حق قرار پائے اور اس سے بدون جو کچھ بھی ہے باطل ٹھہرا۔
  • کلکی اوتار، مسیحا، یا میتریہ نے آنا تو ضرور ہے، مگر اب یہ کوئی ایک وجود نہیں رہا بلکہ انسانوں کی مسلسل نا فرمانیوں کے سبب اب اہل باطل کی نمائندگی کے لیے ایک جھوٹا مسیحاؑ ظاہر ہوگا جو خدائی کا دعویٰ کرے گا، اور تمام اہل باطل اس کی صفوں میں شامل ہو جائیں گے اور پھر اللہ ربِ رحمٰن، حقیقی مسیحؑ کو آسمان سے نازل فرمائے گا تاکہ اس جھوٹے مسیح سمیت تمام باطل کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیں:
    1. دجال اکبر (جھوٹا مسیح)
      انسانوں کی مسلسل نافرمانی اور اللہ کی وحدانیت کو چھوڑ کر ابلیس کی پیروی؛ نیز دنیاوی زندگی میں ہی جنت کی تلاش کی بدولت اللہ ایسے نفس پرستوں کی آزمائش کے لیے ایک ایسا وجود بھیجے گا جو بظاہر انسانوں کی خواہشات کو پورا کرے گا، ان سے ابدی زندگی کا وعدہ کرے گا، خواہشات نفسانی کو بڑھاوا دے کر ہوس پرستی کو تکمیل تک پہنچائے گا۔ تمام اہل باطل، اللہ کے نافرمان، ظلم کے رسیا، عارضی زندگی ہی کو آخری زندگی سمجھنے والے، اللہ کے ساتھ بتوں کی پوجا کو صحیح سمجھنے والے، اللہ سے اولاد منصوب کرنے والے، اور حق کو جھٹلانے والے تمام ہی انسان اس وجود کو ہی خدا مان لیں گے۔ اسی کو کلکی اوتار جانیں گے، اور اسی کو مسیحا۔ خاتم النبیین محمد الرسول اللہﷺ نے اس وجود کو مسیح الدجال بیان فرمایا ہے۔
      مسیح الدجال یا دجال اکبر دراصل باطل کو ایک جھنڈے تلے جمع کرے گا، جس میں بیشتر انسانیت شامل ہو گی۔
    2. عیسیٰ ابن مریم (مسیحِ حقیقی) علیہ السلام
      اگرچہ جنات کی طرح انسانیت کی اکثریت نے بھی نا فرمانی کی روش ہی اختیار کی ہے، اللہ کو چھوڑ کر غیراللہ کی پوجا کو اپنا شیوہ بنایا ہے، بہرحال انسانوں کا معاملہ جنات سے کہیں بہتر ہے، کہ انسانوں میں حق پرست ہر دور اور ہر زمانے میں موجود رہے ہیں چاہے آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوں۔ اور یہی حق پرست دراصل حقیقی نجات دہندہ کے جھنڈے تلے جمع ہونے کی سعادت کے حقدار ہیں۔ یہی معدودے چند لوگ دراصل باطل کے ظلم کا شکار رہے ہیں اور یہی مسکین مزاج حق پر ہونے کے باوجود ناحق کہلواتے رہے ہیں۔ یہی اہل توحید اللہ کی توفیق سے اللہ کی خاطر جیتے اور مرتے رہے ہیں اور یہی وہ اہل حق ہیں جن سے دراصل دنیا کی امامتِ حقیقی کا وعدہ ہے۔ وہ جو اُمید انسان کو آدمؑ سے لے کر نوحؑ تک تھی، جو نوحؑ سے لے کر عیسیٰؑ تک قائم رہی، وہ آخر کار محمد الرسول اللہﷺ اور ان کے سچے عاشقوں تک پہنچی، اور آخرکار اللہ کا فیصلہ آگیا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو زمین پر اللہ کے نائب بننے کا حق رکھتے ہیں۔ اب زبور کا وعدہ اہل اسلام تک اس صورت میں پہنچا ہے:
      وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ (سورة النور. ٥٥)
      (اللہ نے تم میں سے ایمان والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ ضرورضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا)
      یہ خلافت قائم ہو گی عیسیٰ مسیحؑ ابن مریمؑ کی قیادت میں۔ اور عیسیٰؑ اللہ کے حکم سے آسمان سے واپس تشریف لا کر ان کا خوب حساب لیں گے جنہوں نے اپنی طرف سے عیسیٰؑ کو قتل کر دیا تھا، جو بتوں کو خدا کا شریک ٹھہراتے رہے ہوں گے، جو خود مسیحؑ کو اللہ کا بیٹا قرار دے کر تہمت اعظم باندھے ہوں گے، اور ان کا بھی جو خدا کے وجود سے ہی انکاری رہے ہوں گے۔ یہ سب اہل باطل اپنی نافرمانی کے سبب دجال اکبر کو خدا بنا بیٹھے ہوں گے۔ لہٰذامسیحؑ، دجال اکبر اور اس کے پیرووں کا خوب حساب چکتا کریں گے۔
    3. امام مہدیؑ
      دجالِ اکبر کی آمد کی تیاری تو ہمیشہ سے ہی رہی ہے۔ کفر، ظلم اور بربریت تو ہمیشہ سے ہی طاقت کے نشے میں سرمست ہو کر رقصِ ابلیس میں مگن رہے ہیں؛ مگر اہلِ حق کی غالب اکثریت ازل سے ہی مظلومیت کی مثال بنی رہی ہے، حق کبھی ہابیل بن کر دنیا سے رخصت ہوا تو کبھی یوسفؑ کی صورت قید و غلامی کی چکی میں پسا؛ کبھی طائف میں پتھر کھائے تو کبھی کربلا میں کٹا۔ لہٰذا نجات دہندہ کی آمد سے پہلے اہل حق کی تقویت کا سامان بھی تو ہونا ہے، مسیحاؑ کے لیے راہ بھی تو ہموار ہونی ہے۔ وہ مسیحاؑ جس کی پاکیزہ ماں پر تہمت لگی، وہ جس کا شیوہ مسکینوں کی داد رسی تھا، وہ جو بِنا اُجرت اللہ کے حکم سے مریضوں کی شفاء کا باعث تھا، وہ جس کو عین جوانی میں ملزم ٹھہرا کر اپنوں ہی نے اپنی جانب سے سپرد صلیب کیا، وہ مسیحاؑ کیوں آکر پھر سے جدو جہد کرے؟ وہ کیوں آکر آغاز سے باطل کی صفائی کرے؟ انصاف اور مسیحاؑ کے مقام اور مرتبے کا تقاضا ہے کہ مسیحاؑ کے جاہ و جلال، شان و شوکت کے شایان سٹیج پہلے تیار کیا جائے۔مسیحاؑ تو بس اپنے شاہی پروٹوکول اور گارڈز کے ساتھ آکر فیتہ کاٹیں اور خلافت کے تخت پر جلوہ افروز ہوں۔
      مسیحاؑ کے لیے اسٹیج تیار کرنے کی ذمہ داری جس شخصیت کو سونپی گئی ہے، وہی دراصل امام المہدیؑ ہیں، جن کو محمد الرسول اللہ ﷺ کی اولاد ہونے کا شرف حاصل ہے اور جن کو اللہ کے محبوب نے خليفة الله في الارض (اللہ کی زمین پر اللہ کا حقیقی خلیفہ) قرار دیا ہے۔

امید ہے، معزز قارئین کو انسانیت کے آغاز سے اختتام تک کے منظرنامے میں امام مہدیؑ، مسیح عیسیٰؑ، اور دجال اکبر کی ضرورت اور کردار کا کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا۔ اگر آپ کو اس معاملے کوسمجھنے میں کچھ دقت پیش آرہی ہے تو آپ سے گزارش ہے کہ awaisnaseer.com کے ہوم پیج پر جا کر تمام تحاریر کو تاریخِ نشر کے لحاظ سے بالترتیب مطالعہ فرمائیں، انشاٗاللہ پورا معاملہ آپ کی سمجھ میں آجائے گا۔

آئندہ تحاریر میں ہم مندرجہ بالا شخصیات کو تفصیلاً سمجھیں گے اور ان کے کردار، حالات و واقعات پر بھی تفصیلی نظر ڈالیں گے، انشاٗاللہ۔ آپ سے گزارش ہے کہ ہمارا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنا بالکل نہ بھولیں تاکہ آپ کو تمام معلومات بہم پہنچتی رہیں۔

References

References
1 بمطابق محمد قاسم بن عبد الکریم